اُن لبوں پر جب ہنسی تھی میں نہ تھا
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreاُن لبوں پر جب ہنسی تھی۔ میں نہ تھا
ہر طرف جب چاندنی تھی میں نہ تھا
زندگی کی ہر خوشی تھی۔۔ میں نہ تھا
بے بسی بے چارگی تھی۔۔ میں نہ تھا
میں اور سایہ گیسؤے۔۔۔ خمدار کا
میرے دل کی سادگی تھی میں نہ تھا
آپ جیسے شوخ کی خواہش۔۔۔ مجھے
یہ میری دیوانگی تھی۔۔۔۔ میں نہ تھا
تھا وہ تیرے لب ہی کی کلیوں کا فیض
اِک مسلسل بے کلی تھی۔۔ میں نہ تھا
ہجر کی کالی سیاہ راتوں میں۔۔ دوست
درد تھا درماندگی تھی۔۔۔۔ میں نہ تھا
پی رہے تھے خار بھی جس کا ۔۔۔لہو
عشق کی دریا دلی تھی۔۔۔۔ میں نہ تھا
تھا کوئی قسمت کا مارا۔۔۔۔ جان ِ من
جس کی آنکھوں نمی تھی۔۔ میں نہ تھا
آپ کی دہلیز پر دم۔۔۔۔۔۔۔ توڑتی
عشق کی لا چارگی تھی۔۔۔ میں نہ تھا
چل بسا میں تو وہ آئے گھر ۔میرے
میرے گھر میں روشنی تھی میں نہ تھا
چار سُو پھیلی ہوئی شہرت۔۔۔ میری
تیرے غم کی چاندنی تھی میں نہ تھا
بے خودی مشہور تھی تیری۔ وسیم
وہ تو اُن کی بے رُخی تھی۔ میں نہ تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






