اُن کی آ نکھوں میں محبت کی ضیاء دیکھی ہے
بعد مدُت کے عجب آج فضا دیکھی ہے
پیار کے نام پہ مٹ جاتے ہیں ہنستے ہنستے
بعض لوگوں میں تو اس درجہ وفا دیکھی ہے
لگ رہے ہیں وہ بظاہر تو بہت خوش لیکن
اُن کے چہرے پہ اُداسی کی گھٹا دیکھی ہے
اب کسی بات سے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے
جب وفا کی ہے تو پھر اُس کی سزا دیکھی ہے
دردِ دِل تھمنے لگا اُس کے ذرا چھونے سے
اُسکےہاتھوں میں عجب ہم نے شفا دیکھی ہے
چاند خود ٹوٹ کے جھولی میں مِری آن گِرا
آج تو میں نے وہ تاثیرِ دعا دیکھی ہے