اُن کے ہونٹوں پہ جو ہنسی کم ہے
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreاُن کے ہونٹوں پہ جو ہنسی کم ہے
میری آنکھوں میں کیا نمی کم ہے
اب تو کلیاں بھی مسکراتی نہیں
اور شبنم میں بھی نمی کم ہے
اب تو پھولوں میں بھی نہیں خوشبو
آج کل اُن سے دوستی کم ہے
جب سے وہ چھوڑ کر گیا ہے مجھے
چاند کیوں تیری چاندنی کم ہے
ہجر کی رات اور اتنی طویل
کون کہتا ہے زندگی کم ہے
سچ تو یہ ہے مرے مقّدر سے
تری زلفوں کی تیرگی کم ہے
اتنی تو ہو کہ بھول جاؤں اسے
ساقیا یہ تو مے کشی کم ہے
اُن سے کرتے ہو رات دن باتیں
پھر بھی کہتے ہو بے خودی کم ہے
میں نہیں دیتا اُن کو پیمانہ
جن عزیزوں میں تشنگی کم ہے
ہم کسی سے جفا نہیں کرتے
دوستو ہم میں یہ کمی کم ہے
اُس نے مانگا ہے آج میرا لہو
کیسے کہہ دوں کہ یہ خوشی کم ہے
تیرے نورِ جمال کے ہوتے
چاند تاروں کی روشنی کم ہے
تیرے حسنِ خیال کے آگے
میں نے مانا یہ شاعری کم ہے
جب سے پھیری ہے تُو نے چشمِ کرم
دشمنوں کی بھی دشمنی کم ہے
اب بھی بیٹھے ہو اُس کے رستے میں
گرد چہرے پہ جو جمی کم ہے
تیری کڑوی کسیلی باتوں سے
میرے شعروں میں چاشنی کم ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






