اُنہیں اک اور مہلت چاہیے ہے
ہمیں بھی تو محبت چاہیے ہے
وصال و ہجر بھی اچھے ہیں لیکن
دلِ بسمل کو راحت چاہیے ہے
فقط ناراضگی کافی نہیں ہے؟
کہ گاؤں سے بھی ہجرت چاہیے ہے
لبادہ بے حسی کا اوڑھ لو پر
نگاہوں میں بھی نفرت چاہیے ہے
مری میت کو تم کندھا نہ دینا
ترے ماتھے یہ ذلت چاہیے ہے
بڑی حیرت ہے دشمن کو بھی ہم سے
عنایت پر عنایت چاہیے ہے
یہ تسبیح عشق کی تسبیح ہے عاکفؔ
عبادت میں بھی شدت چاہیے ہے