اِس خط میں میرا اظہار تڑپتا ہے
لفظ لفظ یوں ہر بار تڑپتا ہے
لکھی جو قلم کی نوک نے عبارتیں
انہیں گیتوں کا گفتار تڑپتا ہے
کپکپاتی انگلیوں میں کبھی قلم بہکا تھا
فکر تشویش خود قلم کار تڑپتا ہے
ائے وقت غریبی تجھ پر تہمت تو نہیں
مگر تیری بیپرواہی سے سنسار تڑپتا ہے
جگتے ستاروں کے ساتھ دیئے بھی جلتے ہیں
کھلے دریچوں میں ایسے انتظار تڑپتا ہے
تیری الجھن میں جو سو نہ سکا اک پل بھی
اُسی ہی شخص کا آج، انتشار تڑپتا ہے
اے! زمانہ تیری شفقت میں بھی سنتوشؔ
بے ترس لوگوں کیلئے کوئی بیکار تڑپتا ہے