اِس سے پہلے کہ زندگی سنگین ہو جائے
کہ ساری کی ساری نہ غمگین ہو جائے
کیوں نہ بھول جائیں سب خطاؤں کو
پھر ایک دوسرے پر یقین ہو جائے
ابرِ محبت ہو سر پہ چھایا ہوا ہر سُو
پیروں تلے بھروسۂ وفا زمین ہو جائے
لوٹ آؤ اگر ہاتھوں میں ہاتھ دے دو
تو زندگی پھر سے ایک بار حسین ہو جائے
جو خزاں ہے چھائی ہوئی وفاؤں پہ
اُتر جائے وفا سے ٗ رنگ رنگین ہو جائے
جاتی ہوئی سانسوں کو سانس آ جائے
کھوئے ہوئے اعتبار کو تسکین ہو جائے
روح سما جائے ایک دوسرے کے اندر
دل ایک دوسرے کے دل کا مکین ہو جائے