اِس قَدَر فاصلے وہ بڑھانے لگے
ہم سے اب رنجشیں بھی مٹانے لگے
ہم میں شامل وہ ہوتے تھے کچھ اس طرح
چاند ساگر میں جیسے نہانے لگے
کل تلک جن کی آنکھوں کے کاجل تھے ہم
آج وہ ہم سے نظریں چرانے لگے
جو کبھی ہم سے ملتے تھے دل کھول کر
اب وہ چہرا بھی اپنا چھپانے لگے
ہم پہ کرتے رہے ہیں جو گل پاشیاں
اب وہ راہوں میں کانٹے بچھانے لگے
دو کھڑی ہاتھ بس سینکنے کے لیے
وہ مرا جھونپڑا ہی جلانے لگے
جانے کیوں اپنی سانسیں اکھڑنے لگیں
جس گھڑی شہر وہ چھوڑ جانے لگے
چشم رو رو کے دیپک جو شل ہو گئے
اپنی قسمت پہ ہم مسکرانے لگے