اِس کا نہیں ملال، کہ سونے نہیں دِیا
تنہا تِرے خیال نے ہونے نہیں دِیا
پیش آئے اجنبی کی طرح ہم سے جب بھی وہ
کچھ ضبط، کچھ لحاظ نے رونے نہیں دِیا
چاہا نئے سِرے سے کریں زندگی شروع
یہ تیرے اِنتظار نے ہونے نہیں دِیا
طاری ہے زندگی پہ مِری مستقل ہی رات
دِن تیرے ہجر نے کبھی ہونے نہیں دِیا
اِک سیلِ غم تھا گرد مِرے رات دِن، مگر
اشکوں میں ہمّتوں نے ڈبونے نہیں دِیا
ہجرت کہاں سے لاتی کچھ آسودگی خلش
غم فاصلوں نے کم کبھی ہونے نہیں دِیا