اِن بانہوں میں آجاؤ کہ جہاں بستا رہے
اپنا درد بھی مسکراؤ کہ جہاں بستا رہے
یہاں کئی دنوں سے شام اداس رہتی ہے
کچھ تو دل بہلاؤ کہ جہاں بستا رہے
ملنا اور بچھڑنا سب تقدیر کا کھیل ہے
اپنی یادوں کو بتاؤ کہ جہاں بستا رہے
اِن اندھیروں سے کیا روشنی مانگو گے
خودی کو پھر جگاؤ کہ جہاں بستا رہے
میرے ہر خیال میں لگن سی لگتی ہے
مجھے کبھی تو چاہو کہ جہاں بستا رہے
زمانے کو یہ کام مل گیا ہے سنتوشؔ
تم تو نہ ستاؤ کہ جہاں بستا رہے