دہر میں انقلاب آجائے
وہ اگر بے نقاب آجائے
کس کو معلوم اس زمین پہ کب
آسماں سے عذاب آجائے
کون کانٹوں کی فکر کرتا ہے
بس میسر گلاب آجائے
رات گذرے گی اس کو پڑھنے میں
وہ جو چہرہ کتاب آجائے
میں نے سچ بولنے کی ٹھانی ہے
آئے کوئی ، عذاب آجائے
اتنی عجلت کی کیا ضرورت ہے
پہلے ، خط کا جواب آجائے
تیرگی میں ہو روشنی مفتی
گر مرا ، ماہ تاب آجائے