آنکھ میں یوں ٹھہر گیا دریا
میرے سر سے اتر گیا دریا
چشم کب تک سمیٹ کر رکھتی
ایک پل میں بکھر گیا دریا
کون اترا ہے تشنگی لے کر؟
ہائے لوگو! کدھر گیا دریا؟
شہر والوں میں شور برپا تھا
چپکے چپکے گزر گیا دریا
باعثِ بے گھری بنا یاروں
جانے کس کس کے گھر گیا دریا
رات آنکھوں میں تھا قیام پزیر
اور وقتِ سحر گیا دریا
کتنا خاموش ہو گیا دیکھو
جانے کیسے سدھر گیا دریا!
پیاس جس کی تلاش میں گم تھی
زینؔ اُس کے شہر گیا دریا