آنکھیں ہیں تیری یا ہے چھلکتا ہوا پیمانہ
جیسے ہو ا نمیں ڈوبا میرے یاس کا میخانہ
آنکھیں میں میری اب بھی چھایا وہی ہے منظر
شرما کے تیرا مجھ سے آنچل سے مُنہ چھُپانہ
خاموش نگاہوں سے کیا تو نے کہا مجھ سے
آنکھیں ہی سمجھتی ہیں نظروں کا یہ افسانہ
آنکھیں کا میری کھُلتے چہرے پہ تیرے جانا
جیسے ہو بیاباں میں بُلبل کا چہچہانہ
آنکھیں بھُلا نہ پایٔ بھیگے تیرے چہرے پر
بالوں سے تیری جھڑ کر موتی کا چھٹک جانہ
بعدِ صبا سی لہریں آنچل سے یوں اُڑانا
جیسے کہ فضاؤں میں بکھرے نیا ترانہ
سیکھا نہیں کسی سے تیری ادا ہی جانا
ایک تیر نیم کش کا آنکھوں سے یوں چلانہ
راہوں پہ تیری اب بھی آنکھیں لگی ہے میری
نظروں کی پیاس آکر ایک بار بُجھاجانہ
چاند اپنی نگاہوں میں اب اور نہیں جچتا
چہرا تو آ کے مجھکو ایک بار دِیکھا جانہ
میں اپنی نگاہوں سے خود ہی ہوں گرا جاتا
کیا بات تیری ہے اور کیا پیش ہے نظرانہ
آنکھوں کی تیری مییٔ سے غافِل نہ رہا میں بھی
جب سے پیا ہے اِنکو بھولا ہر ایک افسانہ
شاعر کی شاعری میں لطفِ شباب بھر دیں
نظروں جھُکا کے تیرا چُپکے سے مسکرانہ
ڈوبا تیری آنکھوں کی مستی میں ہے اصغر ؔ بھی
ہے یا س کہ تو آ کے ڈوبے یا ڈوبا جانہ