اٹهنے لگے تو درد یہ طوفان میل ہے
آنکهوں سے ہو عیاں تو یہ دریائے نیل ہے
آگاہ اپنے دل کی بصیرت سے کیا کروں
دهڑکن سے ضوفشاں مرے گویا عقیل ہے
ٹوٹے گواہ سارے ہوئے کاغذات گم
جانے کہاں مگن مرے دل کا وکیل ہے
ناکامیوں کی کوکه سے ابهرے گی زندگی
رنج و الم کو سہنے کی یہ ہی دلیل ہے
کرنا ہے قتل اپنی اناوں کو ڈهونڈ کر
ناکامیوں کی موت یہ واحد سبیل ہے
ظلمت کدے سے بهاگنا ممکن نہیں مرا
اپنا ہی سایہ راہ کی میرے فصیل ہے
وشمہ تری نگاہ میں آیا ہے جو خمار
یہ دشتے نامراد میں تیرا کفیل ہے