اٹھا کر طاق سے گلدان رکھ لیا گیا تھا
دوبارہ ملنے کا امکان رکھ لیا گیا تھا
تمام دودھ کی نہریں وہ شیریں میوہ جات
فلک پہ کچھ مرا سامان رکھ لیا تھا
نظارے اور بھی دیکھے تھے تیری ضرورت کو
نظر اٹھانے کے دوران رکھ لیا گیا تھا
قدم قدم تھے مقامات حیرت و حسرت
سو دل کو پہلو میں حیران رکھ لیا تھا
قلم نے کتنے ھی ابواب تلف کر ڈالے
تمھارا ذکر تھا جانا رکھ لیا گیا تھا