اپنا بن کر لوٹتے ہو تم مرے ایثار کو
یہ تو سوچو کیا کہیں گے لوگ ایسے پیار کو
جیسے کویٔ نِیم پاگل جس طرح خبطی کویٔ
پہروں ایسے دیکھتی ہوں میں در و یوار کو
پے بہ پے کیں آپنے مجھ پر جفاییںٔ ہر قدم
کر دیا پھر بے صدا آیینۂ اظہا ر کو
کیسی آندھی تھی کہ پتےً سب اڑا کر لے گییٔ
پل میں تنہا کر گییٔ ہے جو ہرے اشجار کو
توڑ دیں میں نے غلامی کی وہ زنجیریں سبھی
رکھ دو اپنے ہاتھ سے اب ظلم کی تلوا ر کو
اب ہو نازاں میرے سر سے سایباں کو چھین کر
ایک دِن تر سوگے تم بھی سایۂ دیوا ر کو
تم تو کہتے تھے تمہاری آبرو ہوں جان ہوں
داستانیں اب سناتے ہو مری اغیار کو
اب زمانے میں بھروسہ کس پہ عذرا کیجیۓ
ناگ بن کر ڈس لیا ہے یار نے اِک یار کو