اپنوں سے خوشیوں کے طلب گار ہی رہے
نہ ملا ہم کو چین بے قرار ہی رہے
یُوں قسمت نے کئے مجھ پے کرم بڑے
ہم سیدھے راستوں پے خوار ہی رہے
یُوں تو پاس تھے کتنے طعبیب یارو
نہ ہوا علاج دلِ بیمار ہی رہے
جس نے دیئے ہیں غم میری خوشیوں کو
وہ پھر بھی میرے یارو یار ہی رہے
وہ آئے نہ بول کر بھی ملنے ناجانے کیوں
ہم کرتے رات بھر تک انتظار ہی رہے
جس دن سے میں نے اُس سے دل لگایا
ہم کو غم کے بڑے آثار ہی رہے
ٹھوکراں کے وہ مجھے چپ چاپ چل دیئے
کرتے ہم رو کے اصرار ہی رہے
کس نے کیا حال پوچھا جو مجھے سب نے
ترے نام سے کرتے سدا انکار ہی رہے
میں اب بھلا دؤں یا نہ بھلا ؤ اُس کو
عمر بھر ہم کرتے یہ وچار ہی رہے
ڈوبے رہے اُس کے پیار میں جب تک نہالؔ
سچ بولوں تو یارا دشوار ہی رہے