اپنی سوچوں سے فراغ کس نے دیکھے
منتشر حسرتوں کے مذاق کس نے دیکھے
ہم وعظی، ہم ہی دلیل ان کا
زندگی کے اصل حقائق کس نے دیکھے
حوصلوں کی تو بڑی چٹانیں ہیں
اور راستے سب فراخ کس نے دیکھے
اوروں کی فکر میں فرصت ہی کھودی
اپنے بھی یوں فراق کس نے دیکھے
نیندوں کی ہوتی ہے مناجات اپنی
مگر خوابوں کے قزاق کس نے دیکھے
احساس دلوں کو ہوا دیتے ہیں سنتوشؔ
یہاں دھڑکنوں کے مزاج کس نے دیکھے