اپنی واحد مثال ہم آپ رکھتے ھیں
Poet: By: Abdul Wahid, Lahoreتجھے آنسوں کے بغیر ھی رلا دوں
عشق ایسا لا زوال ھم رکھتے ھیں
نظریں جو ملاؤں تو چیر دیں تمھیں
آنکھ میں ایسی تیز دھار ہم رکھتے ھیں
تم جو نہ ھو دل میں تو چیر دیں اسے
دیکھ لےپیار جو بےشمار ہم کرتے ھیں
ڈرتے ھیں کہیں تم پاگل نہ ھو جاؤ
پیار اپنا سنبھال کے ہم رکھتے ھیں
خوب احساس ھے تجھے دیے دکھوں کا
تیرے سامنے سر جھکا کے ہم چلتے ھیں
تو پھلی محبت ھے اسی لیے خاص ھے ورنہ
آنکھیں اور بھی چار ھم سے رکھتے ھیں
اتنا نظر انداز نہ کرنا کہ روٹھ جایں ہم
بے رخی میں نام اپنا ھم رکھتے ہیں
بدلنا چاہو گے بھی بدل نہ پاو گے
محبت میں اثر کمال کا ھم رکھتے ہیں
امید ھے یہ پڑھ کے لگ جاو گی سینے سے
خوش فھمی ھی سھی ھاں ھم رکھتے ھیں
گفتار کا تو یہ آلم کہ بس کیا کھیے
الفاظ تو الفاظ لھجہ کمال ھم رکھتے ھیں
کیسا پیار ھےمیرا اپنے در و دیوار سے پوچھ
وہ اپنے اندر آنکھوں دیکھا حال رکھتے ھیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






