مجھ کو وہ پھر سے اپنی پہچان دے گئے
یوں زندگی کو جینے کا سامان دے گئے
حسرت تھی آنکھ بھر کے کبھی ہم کو دیکھتے
دیکھا تو پھر سے ملنے کا ارمان دے گئے
نکلا تھا چاند بھی رات کو تیری تلاش میں
اور ستاروں کو عاشقی کا عنوان دے گئے
وہ خواب تھا خیال تھا یا میرا تھا گماں
میرے تصور کے بتوں کو طوفان دے گئے