اپنی کالی زلفوں سےدن کو رات کرتی ہے
جب بھی کرتی ہےآنکھوں سےبات کرتی ہے
اپنی تقریر سے استادوں کو مات کرتی ہے
ہربات کی جھگڑےسےشروعات کرتی ہے
اب اس پہ کوئی کتاب تصنیف کرنی پڑےگی
کےوہ دن رات کیا کیا کرامات کرتی ہے
میری برائیاں کرنا ہی مشغلہ ہےاس کا
اپنے بھائی سے میری شکایات کرتی ہے