شاید کسی کے حسن سے گھبرا گیا ہے چاند
دھیرے سے میری آنکھ میں یوں آ گیا ہے چاند
لیتا تھا مستعار یہ سورج کی شعائیں
ظل زمیں سے اسلئے گہنا گیا ہے چاند
دیکھا ہے اسے تیرے دریچے میں آج بھی
شاید سفر سے لوٹ کے گھر آ گیا ہے چاند
کھلنے لگی ہیں دیکھئے دالاں کو کھڑکیاں
تاروں کے جھمگٹوں سے بھی اکتا گیا ہے چاند
تھامے ہوئے ہیں وقت نے چنچل حنا کے رنگ
ہر سوچ میں اک چاند سا بکھرا گیا ہے چاند
چھونے لگی ہیں شدت وحشت کو فضائیں
شعلہ سا ایک شوق کا دہکا گیا ہے چاند
لہروں کے انگ انگ سے بجلی ہوئی عیاں
آ کر ندی کو نور سے نہلا گیا ہے چاند
بڑھنے لگی ہیں حسن کی بے لوث کروٹیں
جذبوں میں دیپ آس کے دمکا گیا ہے چاند
اک اک حسین داستاں بتلا گیا ہے چاند
اپنی ہی ادا دیکھ کے شرما گیا ہے چاند