اپنے بیگانے کی پہچان بھلا دیتی ہے
حرص انسان کو حیوان بنا دیتی ہے
آہ جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
بعد مدت کے بھی بچھڑوں کو ملا دیتی ہے
ایک دن موت نے آنا ہے نہیں ٹل سکتی
لوگ کہتے ہیں یہی زیست دغا دیتی ہے
میرے حالات برے دیکھ کے منہ موڑ لیا
خط پرانے وہ سبھی میرے لٹا دیتی ہے
چاہے جتنا بھی کروں ظلم و ستم اس پر میں
تم سدا خوش رہو جینے کی دعا دیتی ہے
اس لیے چین سے شہزاد نہیں سو پاتا
خواب غفلت سے مجھے نیند جگا دیتی ہے