اپنے رخ میں رہا جیون، کبھی بھاتا تو کہتے
عشق کا بھی ہمیں انداز کوئی آتا تو کہتے
نینوں نے تو منافعے جھپکیوں سے ہی پالیئے
منتظری کا پھر وہ خواب کبھی سوتا تو کہتے
رگوں میں رنجشوں کی لہر بھری ہی رہی
خون جگر کا بھی کہیں کھلتا تو کہتے
ہمیں تو عطا ہوگئی حدیں آج اپنی
تنہائیوں کا انگ پھر سے تڑپتا تو کہتے
اناؤں کی رمز میں کوئی تسکین ٹھہر گئی تھی
عبادتوں کی ضبط سے کوئی اٹھتا تو کہتے
آوارگی جیون کا روش بن گئی سنتوشؔ
کوئی جینے کا ڈھنگ بھی آتا تو کہتے