اپنے غم کو ترتیب سے لکھا تو غزل بن گیا
اس عشق کے بعد ہر لمحہ ازل بن گیا
کنکر ماردیا تھا کسی نے ٹھہرے پانی میں
جیون تو میرا پھر بکھرتا منظر بن گیا
بے ترغیب تمناؤں نے قدم بھٹکادیئے
کہ ہر راستہ جیسے میری منزل بن گیا
زندگی کے پیمان ٹکڑے ہوئے دیکھ لئے
کوئی دل اجڑا تو کوئی سفل بن گیا
اک رُخ دکھاکر پھر اپنے رُخ سے مارنا
زمانے لیئے دیکھو کیسا شغل بن گیا
بڑا شور و غل ہے شہر میں سنتوشؔ
اپنی عصوبتوں کا بڑا تعمل بن گیا