اپنے مہکے ہوئے آنچل کی ہوائیں دو مجھے
Poet: ڈاکٹر زاہد شھیخ By: ڈاکٹر زاہد شھیخ, Lahore Pakistanاپنے مہکے ہوئے آنچل کی ہوائیں دو مجھے
غم کی اس دھوپ میں زلفوں کی گھٹائیں دو مجھے
زندگی ڈوب گئی غم کے اندھیروں میں کہیں
تیری فرقت میں چمن ہو گئے سب ویرانے
میری امید مٹی خواب مرے ٹوٹ گئے
پھر مجھے دے دے مرے کل کے حسیں افسانے
جو تھیں میرے لیے سرگم سی صدائیں دو مجھے
اپنے مہکے ہوئے آنچل کی ہوائیں دو مجھے
میں نے اشکوں میں کہیں تجھ کو چھپا رکھا ہے
تو مرے پاس نہیں میری نگا ہوں میں سہی
کیا ہوا مل نہ سکی پیار کی منزل مجھ کو
میں ترے پیار کی بھولی ہوئی ر ا ہوں میں سہی
پھر وہی سادہ و رنگین ادائیں دو مجھے
اپنے مہکے ہوئے آنچل کی ہوائیں دو مجھے
جھلملاتی ہیں ابھی تک تری یادیں دل میں
آج بھی میرے تصور میں مرے پاس ہے تو
میں تجھے بھولنا چاہوں بھی تو ممکن ہے کہاں
میری ویران سی اس زیست میں بس آس ہے تو
ااب وفاؤں کی نہ کچھ اور سزائیں دو مجھے
اپنے مہکے ہوئے آنچل کی ہوائیں دو مجھے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






