اپنے ہی نام پہ اب خود سے بغاوت نہ رہی
زندگی ! مجھ سے تو جینے کی تجارت نہ رہی
آئینہ ٹوٹ بھی سکتا ہے مرے ہاتھ میں بھی
میری سانسوں سے خدارا تو شرارت نہ رہی
اٹھ نہ جائے یہ کہیں سوئی ہوئی وصل کی رات
اونچی آواز میں ہجرت کی تلاوت نہ رہی
بات ہی بات میں مٹ جائے نہ نقشہ دل کا
شہر زندان کی تو ایسی بھی حالت نہ رہی
ہم ترے شہر کے باسی ہیں ترے جانثار
ہم وفادار ہیں ہم سے تو عداوت نہ رہی
جن کے ہوتے ہوئے لٹ جائے حسن کی دولت
ایسے رشتوں کی اے وشمہ تو وکالت نہ رہی