اچھا نہ ہو بُرا ہی سہی، یار ہو سہی
تقسیم زندگی کا تو کچھ بار ہو سہی
یکسانئ حیات کے گرداب سے بچیں
نیا بھلے ہی ڈولتی ہو، پار ہو سہی
رُخصت ہوئی ہے ماں تو ملی دھوپ کی خبر
اب ڈھونڈھتا ہوں، سائیہ دیوار ہو سہی
قائم بہار وقت کی امید تو رہے
ٹہرا کسی بھی آس پہ گُلزار ہو سہی
اظہر گماں ہے ٹہری ہوا پر رقیب کا
پردہ ہلے ذرا سا تو دیدار ہو سہی