خاموشی اس قدر بس گئی ہے مجھ میں
کہ اب کچھ اور اچھا نہیں لگتا
پانی سر سے گزر گیا ہے اس لیے
اب تو تیرا ہنسنا بھی اچھا نہیں لگتا
ملنا ہوا اگر کبھی تو مل لیں گے
پر یوں تاک میں رہنا اچھا نہیں لگتا
اتنے برس جو گفتگو کی ہم نے
اس کا نتیجہ کچھہ اچھا نہیں لگتا
میرے ہاتھ میں تیرا ہاتھ ہو اب
یہ تصور بھی کروں تو اچھا نہیں لگتا
تیرے بلانے پر میں چلا آؤں تو
یہ کسی اور کو اچھا نہیں لگتا
تو بس بات صرف اتنی سی ہے کہ
اب میں تجھے اچھا نہیں لگتا