کہیں صحرا کہیں سُوکھے شجر اچھے نہیں لگتے
مجھے اب خواب زاروں کے سفر اچھے نہیں لگتے
جوابی خط میں یوں اُس نے میرے بارے میں لکھا تھا
بُرا بھی کہہ نہیں سکتے مگر اچھے نہیں لگتے
نہیں مصروف میں اتنا کہ گھر کا راستہ بھولوں
کوئی جب منتظر نہ ہو تو گھر اچھے نہیں لگتے
سمندر تیرتی لاشوں سے یہ کہتا رہا شب بھر
مجھے بھی ڈُوبنے والو بھنور اچھے نہیں لگے
نہیں ایسا کہ اب پرواز کی طاقت نہیں باقی
میری امید کے پنچھی کو پر اچھے نہیں لگتے