تیری یاد آتی ہے کبھی کبھی
اک آہٹ سی ہو جاتی ہے کبھی کبھی
تیرا نام آتا ہے جب لبوں پر
سل جاتے ہیں یہ ہونٹ کبھی کبھی
کرتے ہیں تیرا انتظار شب ہجراں میں
ہو جاتی ہے تم سے ملاقات کبھی کبھی
غم دوراں سے مشکل ہے غم جاناں لیکن
ملتی ہے یہ سوغات زندگی میں کھبی کھبی
تیرے غم میں پنہاں ہے اس کا درد جمیل
جو ہوتا ہے جلوہ گر تیری محفل میں کبی کبھی