اک اشک گرایا بھی نہیں جاتا
تجھے دل سے بھلایا بھی نہیں جاتا
جن آنکھوں نے دیکھے تھے فقط خواب ترے
ان آنکھوں کو برسایا بھی نہیں جاتا
کہاں ہو تم اب تو لوٹ آؤ جاناں
تری جدائی میں مجھ سے مرا بھی نہیں جاتا
چھوڑ دیا اس نے تجھے اے دل مان جا
سچ کو جھوٹ آخر بنایا بھی نہیں جاتا
اشک جب رواں ہوتے ہیں سبب پوچھتے ہیں لوگ
مجھ سے راز محبت اب چھپایا بھی نہیں جاتا
بعد جدائی یہ آنسو کس کام کے ماریہ
جن سے صنم کا دل پگھلایا بھی نہیں جاتا