اک اور نظم محبت کے نام ۔ ۔ ۔ ۔
Poet: Dr Qamar Siddiqui By: Dr Qamar Siddiqui, Kharianاگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
اگر تم سمجھ پاؤ تو ، چلو سمجھا ئے دیتے ہیں
محبت کا صحیح چہرہ ، تمہیں دکھلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
اگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
یہ دو دن کی بہار جاں فزا ھے دل لبھاتی ھے
یہ بے موسم شگوفے، ٹہنیاں اور گل کھلاتی ھے
یہ چھا جائے تو خاموشی بھی ہر پل چہچہاتی ھے
جو ہوتا ھے ، نہیں ہوتا ، جو نہ ہو یہ دکھاتی ھے
اگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
یہ تعبیروں کو بھٹکا دے مگر سپنے پرونے دے
یہ لے جائے سر منزل مگر واصل نہ ہونے دے
یہ پانی دے پیاسے کو مگر لب نہ بھگونے دے
یہ نیندوں کوسلا دے اور آنکھوں کو نہ سونے دے
اگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
محبت کے لئے ہر دل کھلا روزن ، جھروکا رے
جہاںچاہے چلی آئے اسے کب ، کس نے روکا رے
اجی بچنا ، سنبھلنا جان جاں دھوکا ہے دھوکا رے
جو اب نینن بہاتے ہو تمہیں تب ناہیں ٹوکا رے
اگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
محبت کج ادا ہے ، بے وفا ہے ، جور پرور ہے
یہ اک تیغ برھنہ ہے ، زھر آلود خنجر ہے
سنو ! اب بھی پلٹ جاؤ میری جاں یہ ھی بہتر ہے
کٹھن منزل ، سفر دشوار ، حاصل “ دیدہء تر “ ہے
اگر تم سن سکو جاناں ، تو ھم بتلا ئے دیتے ہیں
جو تم اصرار کرتے ہو تو اپنی رائے دیتے ہیں
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






