اک اک ادا تھی قہر کے تیور لئے ہوئے
نکلے جو وہ حجاب سے خنجر لئے ہوئے
ہم لے اڑے ہیں ان کی جھلک اک نگاہ میں
بیٹھے رہیں نقاب وہ رخ پر لئے ہوئے
ان کا جمال ناز ہے خنجر در آستیں
ان کی شمییم زلف ہے نشتر لئے ہوئے
ڈسنے لگی ہے اب شب فرقت کی تیرگی
آ جاؤ صبح روئے منور لئے ہوئے
ہر گام پر ہے اک نئی الجھن کا سامنا
ہم آئے ہیں عجیب مقدر لئے ہوئے
جس دم چمن میں آئے وہ بن کر عروس ناز
حاضر ہوئی بہار، گل تر لئے ہوئے
دیکھے تو کوئی ان کی یہ طفلانہ دھمکیاں
مجھ کو ڈرا رہے ہیں وہ خنجر لئے ہوئے
اس کے طفیل بخش دے یارب ! نصیر کو
پہنچا جو کربلا میں بہتر لئے ہوئے