یہ جو پہناوا ہے زخموں پہ، مداوا تو نہیں
یہ جو آنکھیں ہیں، ترے نور سراپا کی قسم
اس قدر پھوٹ کے روئی ہیں کہ اب یاد نہیں
کون سا درد کہاں آن ملا تھا ہم کو
کس جگہ ضبط پریشان ہوا پھرتا رہا
نہ ہمیں راس رہا ہجر نہ ملنے کی گھڑی
اب تمہیں کیسے کہیں زخم پہ مرہم رکھو
اب تمہیں کیسے کہیں ہم سے کہیں آ کے ملو
اب تمہیں کیسے کہیں آنکھ سے بہتے ہوئے شخص
اب ہمیں اور کئی دکھ بھی تو ہو سکتے ہیں