اے شبِ ہجراں بتا تو ہی
کیسے سوئیں ہم
کہ اب تو تھک چکی آنکھیں
کہ اب تو تھم چکی سانسیں
یہ پلکیں بند نہیں ہوتیں کسی طور
کسی لمحے میں بھی نہیں سوتیں
جو آنکھیں بس تمھاری ہیں
پھر کیوں تھکن سے ہاری ہیں
کسی طور سو نہیں سکتی
وصل کی خواہش میں
تیرے ہی خواب روز بُنتی ہیں
اگر یہ بند ہو بھی جائیں تو
ہجر کے سنگ ریزوں میں پڑے پتھر
ان کا درد بڑھاتے ہیں
پھر کس طرح دے پاؤں کچھ آرام ان کو
جو آنکھیں تیرے وصل کے انتظار میں
بہت ہی تھک گئیں اب تو
اے شبِ ہجراں بتا تو ہی
کیسے سوئیں ہم
کہ اب تو تھک چکی آنکھیں
کہ اب تو تھم چکی سانسیں