دسمبر کی دھند ہے
تیرے یاتھ میں، میرا ہاتھ یے
اک لمبا کچا رستہ یے
اس پہ ہم تم چلتے ہیں
کچھ باتیں دونوں کرتے ہیں
کچھ باتیں کہہ نہیں پاتے ہیں
تم دور افق پہ انگلی سے
ایک منظر سا بناتے ہو
میں اس کو دیکھنے لگتی ہوں
تب مجھ کو ٹھوکر لگتی ہے
تم کھینچ کہ میرے یاتھوں کو
مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہو
اور گرنے سے بچاتے ہو
میرے الجھے بال پیشانی پہ
تم ہاتھوں سے ہٹاتے ہو
میرے لرزتے ٹھنڈے ہونٹوں پہ
تم اپنے ہونٹ سجاتے ہو
پھر چپکے سے میرے کان میں
کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہو
مسکرا کے یاتھ چھڑا کے میں
دو قدم پیچھے کو ہٹتی ہوں
پھر یوں ہی شرما کے جاناں
تیری بانہوں میں سمٹتی ہوں
اک ہچکی مجھ کو آتی ہے
اور آنکھ میری کھل جاتی ہے
میں تنہا اپنے بستر پہ
اک تکیہ بھینچے لیٹی ہوں
اے کاش پھر نیند آ جائے
وہ خواب وہیں سے جڑ جائے
تب آنکھ کبھی نہ کھولوں میں
تیرے سنگ ابد تک ہو لوں میں