اک دن ہمارے پاس وہ آیا تو اس طرح
اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو اس طرح
ہوش و ہواسِ ذہن کی پھر تتلیاں اڑیں
آنکھوں سے یہ نقاب ہٹایا تو اس طرح
ہم بیٹھے جب تلک! وہ رہا میرے سامنے
یہ درد و پیار دل میں جگایا تو اس طرح
کتنے عزیز جلنے لگے دیکھ دیکھ کر
یہ دوستی کا رشتہ بنایا تو اس طرح
ہم سفرِ زندگی جو اسے مان بیٹھے ہم
اس نے ہمیں یقین دلایا تو اس طرح
اک دوسرے سے ہم کو شکایت نہ ہو سکی
ہر ایک وعدہ کر کے نبھایا تو اس طرح
آئے خیال جعفری پھر وصل رات کے
اک روز اس نے خود کو سجایا تو اس طرح