میرے ہمدم میرے ساتھی مجھے اک شام پھر دے دو
بہاروں سے نظاروں سے بھری اک شام پھر دے دو
میرے آغاز الفت کو کوئی انجام پھر دے دو
رنگ و نور میں ڈوبی سہانی شام پھر دے دو
کہاں تک میں اندھیروں میں سفر کرتی چلی جاؤں
سحر کے واسطے اک شام کو انجام پھر دے دو
شب ظلمت کہیں گمراہ نہ کردے اس مسافر کو
ماہ تاب تاروں سے بھری اک شام پھر دے دو
کہاں تک میں سمیٹوں راستے کے خاروخس جاناں
مہکتے رنگوں سے سجی شام گلفام پھر دے دو
کئی صدیوں سے پیاسا اک مسافر دشت میں تنہا
نہ رہ جائے کہیں تشنہ اسے اک جام پھر دے دو
تمہاری بے نیازی مار نہ ڈالے کہیں اس کو
نگاہوں کی زباں سمجھو کوئی پیغام پھر دے دو
کہیں گمنام نہ رہ جائے عظمٰی اپنی داستاں
کہ اس بے نام قصے کو مجسم نام پھر دے دو