اک شمع محبت کی ہی جلائے ہوئے ہیں
قندیل وفا بن کے وہ شرمائے ہوئے ہیں
بدلے ہوئے موسم میں خزاؤں کی جھلک ہے
خواہش کے پرندے جو شجر آئے ہوئے ہیں
تنہائی کےصحراؤں میں جل جاؤں نہ تنہا
آجاؤ کہ پھر باردگر لائے ہوئے ہیں
مجبور سہی وقت سے ہاری جو ہوئی ہوں
وہ بھی تو مرے دل کا نگرپائے ہوئے ہیں
اس سے بھی نہیں مجھ کو یہ شکوہ نہ شکایت
پنچھی بھی محبت کا نظر آئے ہوئے ہیں
یہ رسم وفا عشق و محبت کی بقا ہے
اس عشق کو یوں ہی نہیں بنوائے ہوئے ہیں
بیٹھی ہوں خیالات کی جس سیج پہ وشمہ
یخ بستہ ہواؤں کو یہ بھیلائے ہوئے ہیں