رنگین دھنک بادل کو، چُھو کر گزری ہے اک موجِ رواں ساحل کو، چُھو کر گزری ہے
جب سے گزری ہے، دھڑکن ہے تھم گئی اک صورت میرے دل کو، چُھو کر گزری ہے