جلتا ہے کئی بار دل ایک غزل بنانے میں
آتا ہے مزہ پھر بھی شاعر کو دل جلانے میں
گزرتا رہا ہر لمحہ میرا تیرے امتحانوں میں
گزار دیے کئی سال تو مجھے آزمانے میں
پڑے گہرے زخم دل پہ تیرے ستموں کے
لگے گی اب اک عمر انہیں بھر آنے میں
زمانہ تھا کمسنی کا ستایا کمسنی میں تونے
سچ پوچھو تو ہے مزہ بڑا تیرے ستانے میں
دل بہلتا نہیں تیری یاد کے سوا اب
گزر جاتا ہے وقت شاکر بہلانے میں