اک ملنے کو تجھ سے
میں زندگی کا اُدھر کر بیٹھا ہوں
اب موت نہ جانے کب آجائے
میں سامان تیار کر بیٹھا ہوں
یہاں تو یقین اپنی سانسوں تک کا نہیں
اور میں کمبحت تیرا اعتبار کر بیٹھا ہوں
گھنی رات ، تیری یاد اور وہ برسات
اے عشق کچھ تو بتا میں کیا آخر یار کر بیٹھا ہوں
یہ تنہائی اس کا تحفہ ہے اِس لیے دِل سے لگا رکھتا ہوں
اور یار سمجھتے ہیں دانش میں اظہار کر بیٹھا ہوں