اک پاگل سا لڑکا
اک پاگل سا لڑکا تھا
اپنے آپ میں گم سم سا
زخم ملے تو بھی مسکاتا رہتا تھا
لوگوں پہ اعتبار کر کے اس نے بہت دھوکے کھائے
جتنے بھی دوست ملے
سب نے اسے زخم لگائے
SO
سب سے دور
خواب نگر میں
اس نے اپنی دنیا بسا لی
اپنی جنت، اپنا دوزخ ، اپنے لوگ
اپنا دکھ اپنے آپ سے کہتا تھا
سب کے دکھ اپنے دکھ سمجھتا تھا
سب میں اپنی خوشیاں بانٹتا رہتا تھا
اس کی دنیا میں ہوس کا ذکر نہ تھا
اس کی دنیا میں دولت کی پرواہ نہ تھی
اس کی دنیا میں خوشبو جیسے لوگ تھے
اس کی دنیا میں نفرتوں کی ہوا نہ تھی
پھر
جانے اس پگلے کو کس کی نظر لگی
اس کے خواب نگر میں بھی اک رانی آ گئی
اس کی دنیا
تخت و تاج
چاہت آگ میں جل گئے
اس کی دنیا اجڑ گئی
اس نے اپنی رانی کو پانا چاہا تو
اس کی ہستی اجڑ گئی
ذات پات کے پجاریوں نے
جھوٹی دنیا کے شاہوں نے
اس کے دل و روح کو گھائل کیا
اس کی مسکان چھین لی
سنا ہے اس نے محبت پر سب تن ، من ، دھن وار دیا تھا
راہِ وفا میں
نامِ وفا پر
اپنا سب کچھ ہار دیا تھا
پر
اسے غم کے سوا کچھ نہ ملا
پھر اس نے مر جانا چاہا
پر موت نہ مانی
سنا ہے ابھی بھی کسی لاش کی مانند زندہ ہے
ابھی بھی کھوکھلے قہقہے لگاتا ہے
پر رات میں
سب سے چھپ کر
چاند کو
آنسووں کی زبان میں اپنا دکھ سناتا ہے
سنا ہے اب اسے محبت سے نفرت ہو گئی ہے
اپنی دنیا الگ سے بسانے کی کوشش میں ہے
پھر سے اپنی دنیا میں جانے کی کوشش میں ہے
سب چاہنے والو دعا کرو
یہ پگلا سا لڑکا جس کو
جھوٹی دنیا نے نٹ کھٹ سچے لڑکے سے
ٹوٹا بکھرا آدمی بنا دیا
جس کے خواب نگر کو جلا دیا
پھر سے اپنی دنیا بسانے میں کامیاب ہو جائے
اپنی مستی میں کھو جائے پھر
چاہت روگ کو بھلا دے
اس سوگ کو بھلا دے
توصیف احمد کشافؔ