اک پرانی بات
Poet: Qateel Shafaii By: M Shahzad Asghar, Multan
اک پرانی بات
یہ ان دنوں کی بات ہے
میری نظر میں جب کوئی فسانہ گر جچی نہ تھی
گلی گلی میرے جنوں کی دھوم مچی نہ تھی
اگرچہ وہ میری توجہات سے بچی نہ تھی
پر اس کی سانس میری سانس میں کبھی رچی نہ تھی
جو کبھی کسی مشاعرے میں اس سے ملاپ ہوگیا
حواس تو بجا رہے مگر زرا سا کھو گیا
کیسے عجیب خواب کوئی روح میں سمو گیا
کہ جیسے وہ اپنا آپ ہی مجھ میں پرو گیا
کہ مجھ پہ ہر طرح سے مہرباں میرے نصیب تھے
اداسیاں جو دور تھیں تو قہقہے قریب تھے
وفا کی راہ میں یہ مرحلے عجیب تھے
کبھی جو ہم خیال تھے وہ دوست اب رقیب تھے
جب زمانے بھر پہ ہماری چاہتوں کا راج تھا
کسی کے زہن میں نہ کوئی تخت تھا نہ تاج تھا
مگر دلوں کے درمیاں کھڑا ہوا سماج تھا
کر ے نہ کوئی پیار یہ سماج کا رواج تھا
کہ جب وہ نا گہاں وفا کے راستے سے ہٹ گئی
لگا رہی تھی جو پار وہ ناؤ ہی الٹ گئی
بندھے ہوئے تھے جس سے بادباں وہ ڈور ہی کٹ گئی
قضا پرفشاں جو ہوئی تو زندگی سمٹ گئی
یہ ان دنوں کی بات ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے








