اک روپ ہے جو مخملیں کرتا ہے رات بھر
اک چاند ہے جو دل میں پگھتا ہے رات بھر
نظروں سے دور جا کے کسی شہر وفا میں
سورج بھی شاید آرزو بھرتا ہے رات بھر
مانوس ہو رہی ہیں ہواؤں سے ٹہنیاں
ٹھہرے سمے کا جوگ بکھرتا ہے رات بھر
دن تو حصول رزق کی دوڑوں میں کٹ گیا
اک آشنا سا درد بپھرتا ہے رات بھر
آتی ہے تیری یاد سر راہگزار ہست
سینے سے ایک تیر گزرتا ہے رات بھر
اک آس ہے کہ دل کو ٹھہرنے نہیں دیتی
شعلہ سا ایک شوق کا جلتا ہے رات بھر
اے قریہ ء تعبیر جسے تو نے بھلایا
وہ خواب اب بھی زخم میں ڈھلتا ہے رات بھر