اگر تم کہو تو
میں زندگی کو موڑ کے
واپس وہی لے جاؤں
جہاں بہاریں جھومتی تھیں
جہاں گلاب مسکراتے تھے
جہاں ڈالیوں میں شوخ پن
جہاں رنگینیوں کی مستیاں
جہاں فضاؤں میں بے خودی
جہاں تھی دونوں کی ہر خوشی
اگر تم کہو تو
میں زندگی کو موڑ کے
واپس وہی لے جاؤں
جہاں شب و سحر حسین تھے
جہاں چاند کی چاندنی میں
بات تھی کوئی کمال کی
ستاروں کے کہی جُھنڈ تھے
جو تھے مگن گفتگو یار میں
ہم دونوں کی جو میراث تھی
اگر تم کہو تو
میں زندگی کو موڑ کے
واپس وہی لے جاؤں