اگرچہ ٹوٹ چکا ہوں مگر گرا نہیں ہوں
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiاگرچہ ٹوٹ چکا ہوں مگر گرا نہیں ہوں
تمہارے بعد بھی زندہ ہوں میں مرا نہیں ہوں
ہر ایک شخص کو ہی دیکھتا پھروں گا صنم
شرابی ہوں میں مگر اتنا بھی برا نہیں ہوں
کوئ بھی مثل مری تم کو مل نہیں سکتی
میں التباس نہیں ہوں میں ہم پلہ نہیں ہوں
زمانے والے تجھے بےوفا جو کہتے ہیں
کبھی تو آ کے دکھا دو میں بےوفا نہیں ہوں
تمہارے بعد مجھے رتجگوں نے یوں گھیرا
تمہارے بعد سے اب تک میں سو سکا نہیں ہوں
یہ فخر مجھ کو تو حاصل رہے گا عمر تمام
کبھی بھی یاد تری سے ہُوا جدا نہیں ہوں
جنم جنم میں ملوں گا میں تیرا بن کے تجھے
نکال دو یہ ذہن سے کہ میں ترا نہیں ہوں
بس ایک غم ہی رلاۓ گا عمر بھر کو مجھے
ترے لبوں کی کبھی میں ہُوا صدا نہیں ہوں
تُو کیسے روز بھلا کر ہی یاد مجھ کو کرے
میں عام انس ہوں باقرؔ کوئ خُدا نہیں ہوں
More Love / Romantic Poetry






