دھواں دھواں سا ہے
چاہتوں میں جو آج
اے میرے ہمسفر
ایسا تو کبھی نہ تھا
ہو گئے ہیں سلسلے ایسے
اجنبی ہوں ہم جیسے
اے میرے ہمراہی
ایسا تو کبھی نہ تھا
میرا گھاؤ بھی بھر جائے گا
دنیا کی یہی ریت ہے
مگر اک لمحہ سوچنا تم
ایسا تو کبھی نہ تھا
دل و دماغ پہ چھایا ابر
چھوٹ بھی جائے کیا خبر
مگر اے جان جاں
ایسا تو کبھی نہ تھا