ایسا تو کوئی فرد نہیں جو درد لئے ترس گیا
ہاں مگر ہو سکتا ہے کوئی گرد لئے ترس گیا
دید کی کئی خوشامدیں جو مائلی سے گریز نہیں کرتی
حد میں رہا جو شخص وہ لاحد لئے ترس گیا
خیال اور خواہش کی تو بڑی پرواہ کی تھی
اس طرح بھی یہ خیال ضرب لئے ترس گیا
جو کبھی سند شاہی سے بڑی شہرت رکتھے تھے
وہی وقت فرمان آج آہ سرد لئے ترس گیا
یہاں محبتوں کے دامن بھی مقروض ہیں سارے
نین سے ملائے نین کوئی قرض لئے ترس گیا
ہماری خودغرضی تو نہ بھی سوچے سنتوشؔ مگر
جو جہاں ٹھہرا شخص، اپنے غرض لئے ترس گیا