ایک اک لمحہ گزارا جا رہا ہے ہوش میں
اے زہے قسمت جو ہیں طوفان کی آغوش میں
اب یہ عالم ہے ہمارا بندگی کے جوش میں
ایک سجدہ بے خودی میں ایک سجدہ ہوش میں
مصلحت کچھ بھی نہ کہنے دے تو اس کا کیا علاج
جانے کتنی داستانیں ہیں لب خاموش میں
اف یہ سیلاب حوادث ہائے یہ طوفان غم
یوں بھی لاتا ہوگا دیوانے کو کوئی ہوش میں
ڈر ہے اہل کارواں کی تیزئ رفتار سے
اپنی منزل بھی نہ کھو بیٹھیں کسی دن جوش میں
سامنے محشر ہو یا کونین چاہے کچھ بھی ہو
ان کا دیوانہ تو اب آتا نہیں ہے ہوش میں
کیفؔ سے پوچھے کوئی تیرے کرم کی وسعتیں
اس نے دیکھا ہے دو عالم کو تری آغوش میں