ایک اک لمحہ گزارا جا رہا ہے ہوش میں

Poet: کیف مرادآبادی By: مصدق رفیق, Karachi

ایک اک لمحہ گزارا جا رہا ہے ہوش میں
اے زہے قسمت جو ہیں طوفان کی آغوش میں

اب یہ عالم ہے ہمارا بندگی کے جوش میں
ایک سجدہ بے خودی میں ایک سجدہ ہوش میں

مصلحت کچھ بھی نہ کہنے دے تو اس کا کیا علاج
جانے کتنی داستانیں ہیں لب خاموش میں

اف یہ سیلاب حوادث ہائے یہ طوفان غم
یوں بھی لاتا ہوگا دیوانے کو کوئی ہوش میں

ڈر ہے اہل کارواں کی تیزئ رفتار سے
اپنی منزل بھی نہ کھو بیٹھیں کسی دن جوش میں

سامنے محشر ہو یا کونین چاہے کچھ بھی ہو
ان کا دیوانہ تو اب آتا نہیں ہے ہوش میں

کیفؔ سے پوچھے کوئی تیرے کرم کی وسعتیں
اس نے دیکھا ہے دو عالم کو تری آغوش میں
 

Rate it:
Views: 297
19 Dec, 2024
More Love / Romantic Poetry